مسلمانوں میں ایک بہت بڑی غلط فہمی پروان چڑھائی گئی ہے کہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں. مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ معافی ذاتی گناھوں کی ہوتی ہے مثلآ نماز نہیں پڑھی یا روزہ نہیں رکھا. لوگوں کے حق کھانے ‘ بے ایمانی کرنے’ منافقت کرنے’ پیسوں کی خاطر جعلی اشیا بنانے اور فروخت کرنے’ کسی بھی چیز میںبد نیتی سے مللاوت کرنے’ بےگناہ انسانوں کو ضرر پہنچانے کی اور دیگر حقوق انسانی کے خلاف گناہ کی معافی نہیں’ ان کا کفارہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں شھید ہو جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شھید ہو جائے تب بھی اس کو لوگوں کے حقوق معاف نہیں’ ان کی تلافی کرنی پڑے گی اور قران پاک میں الله تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ وہ حقوق العباد کے گناہ معاف نہیں کریں گے. ۔.. بشکریہ :قاری حنیف ڈار
Urdu News
اپیل بنام مولانا طارق جمیل
مولانا طارق جمیل ہمارے ملک کے ایک جید عالم ہیں. تبلیغی جماعت کے اہم رہنما ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اہم داعی ہیں. حال ہی میں کرونا کے مرض سے صحت یابی کے بعد وہ میڈیا پر آئیے ہیں. اللہ تعالیٰ مولانا طارق جمیل صاحب کو لمبی عمرعطا فرمائے اور ان سے دین کی درست خدمت کر وائے. وہ ایک اچھے اور نرم دل انسان بھی ہیں اور گناہ بخشوانے کے وظیفوں کو بتانے کی وجہ سے بہت مقبول ہیں. مولانا سے انتہائی مودبانہ گزارش ہےکہ گناہوں کو بخشوانے کے وظیفے اور ٹوٹکے فل وقت کیلئے موخر کردیں بلکہ اس کی جگہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں حقوق العباد کے گناہ وظائف اور عبادات سے معاف نہ ہونے کے ذکر پر زور دیں تاکہ لوگ گناہوں سے اجتناب کریں . ہماری قوم معافی کی امید پر مسلسل اور بار بار معاملات اور حقوق العباد کی ضمن میں گناہ کرنے کی عادی ہو چکی ہے.. شکریہ
ہفتہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے منایا جائے ؟
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں ہفتہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا حتمی پلان تیار کرنے کی ہدایت کردی تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک ولادت حضرت محمد مصطفیٰ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت ہفتہ عشق رسول منانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔
فیصلہ بہت اچھا ہے لیکن عشق رسول صرف چائنا بلبوں سے بلڈنگوں کو سجانا نہیں کیونکہ یہ تو بہت معمولی بات ہے’ اسی طرح محفل میلاد میں تو زینب کا قاتل بھی پیش پیش ہوتا تھا.اور ظاہری طور پر اپنے عشق رسول کا اظہار کر تا تھا. اصل عشق رسول کا اظہار انکے اسوہ حسنہ پر عمل کر کے کیا جاسکتا ہے. حکومت کو اعلان کرنا چاہیے کہ اس پورا ہفتہ حکومت کے اہلکار ‘صادق’ اور ‘امین’ بن جائینگے اور حرام خوری سے اجتناب کریں گے’ اور معاملات میں دانت داری کے ساتھ ساتھ صبر اور درگذر کا مظاہرہ کریں گے.
ہم چترالی بھی عجیب لوگ ہیں
اخبار میں ایک سیاسی رہنما کا بیان پڑھ کر یہ چند سطور لکھنے پر مجبور ہوا. بیان کچھ یوں تھا “ریشن بازار سے سیلابی ملبہ ہٹا کر عوام کو مشکلات سے نجات دلایا جائے”.. آخر ہم چترالی لوگ ہر کام کیلئے اخباری بیان اور پریس کانفرنس کیوں کرتے ہیں. کیا دوسرے طریقے موجود نہیں ہیں. مثلا اس کیس میں کیا یہ لیڈر کچھ لوگوں کو سآتھ لیکر علاقے کے اے سی یا ڈی سی کے پاس نہیں جا سکتا تھا. کیونکہ بلاخر کام تو انہوں نے ہی کرنا ہے یا کروانا ہے. اسی طرح کوئی بھی چھوٹا موٹا کام ہو مثلاً بازاروں میں آوارہ کتوں کو تلف کرنا ہو یا بازار کی صفائی مقصود ہو’ یا راستے سے پتھر اٹھانا ہو فوراً اخباری بیان جھاڑ دیا جاتا ہے بجایے متعلقہ حکام کے پاس جاکر موّثر طریقے سے اپنا مطالبہ پیش کرنے کے یا اس سے بھی بہتر وہ کام خود کرنے کا جیسا کہ مستوج کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت راستہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے.
اسی طرح کافی پرانی بات ہے کہ میں پشاور میں تھا اور دوست کے ساتھ مشرق اخبار پڑھ رہا تھا جس میں چترال کے حوالے سے خبر کچھ یوں تھی کہ چترال شہر کےمصافاتی دیہاتوں کے لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹھان پاوندے دن کے وقت مردوں کی غیر موجودگی میں گھروں کے دروازے پر آ کے خواتین کو سودا کرا تے ہیں، حکومت ان پاوندوں کو روکے. میرا پٹھان دوست یہ پڑھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم چترالی بھی عجیب لوگ ہو. تم اس کام کیلئے بھی حکومت کی طرف دیکھتے ہو. کیا یہ کام خود نہیں کر سکتے؟ ظاہری بات ہے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑی. بوہوت ہو چکا’ ہم چترالی قوم کو اپنے میں موجود پٹھانوں اور افغانیوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور اپنے بازووں پر انحصار کرنا چاہئے ‘ نہ کہ ہر کام کیلے .اخباری مطالبہ کا سہارا لینا چاہیے… چترال نیوز رپورٹ
ہر حالت میں باجماعت نماز اہم’ یا صادق اور امین ہونا زیادہ اہم ؟
بیشک نماز فرض ہے اور با جماعت نماز کی فضیلت ہے لیکن اگر ہمارے علماء حضرات موجودہ حالت میں بھی جتنا زور با جماعت نماز پر دے رہے ہیں اگر اتنا زور مسلمانوں کے صادق اور امین بننے پر دیں تو یہ اسلام کی زیادہ خدمت ہو گی. کیونکہ خصوصی حالات میں با جماعت نماز کا استثنیٰ موجود ہے لیکن صادق اور امین نہ ہونے کا کوئی استثنیٰ نہیں. الله تعالیٰ ہمیں اپنی ترجیحات درست کرنے کی سمجھ اور طاقت عطا فرمائے . آمین
A hero of humanity: The ‘Eidhi’ of Chitral (urdu)
دھڑکنوں کی زبان .. محمد جاوید حیات
محمد حسین.. چترال کا عبد الستار ایدھی

روز صبح تڑکے ڈی ٰایچ کیو ہسپتال چترال کے وارڈوں میں ایک لمبا تڑنگا کرشماتی شخصیت پھرتی سے ہر مریض کے سرہانے پہنچتا ہے۔۔کمال خلو ص سے مزاج پوچھتا ہے۔پیشانی پہ ہاتھ رکھتا ہے۔تمار داروں کو تسلی دیتا ہے۔۔۔مریض کے سرہانے تازہ پھل میوے رکھتا ہے۔۔تمار داروں سے دریافت کرتا ہے کہ کوئی مسئلہء تو نہیں اگر کوئی واقعی میں کسی ضرورت کا سامنا کر رہا ہے۔اس کا مسئلہ حل کرتا ہے۔۔خون کی ضرورت ہو بندوبست کرتا ہے۔غریب مجبور کا چہرہ پڑھتا ہے۔فوراً اس کی مدد کرتا ہے۔کوئی خدا نخواستہ وفات پا چکا ہو۔اپنی گاڑی لاکھڑی کرتا ہے خود ڈرائیور بنتا ہے لاش گھر پہنچاتا ہے کفن دفن کا بندوبست کرتا ہے گویا کہ یہ شخص خدمت کرنے کے لیے پیدا ہوا ہو۔۔محمد حسین کی سرگرمیاں دیکھ کر ہر کوئی آپ کو چترال کا عبد الستار ایدھی کہہ سکتا ہے۔یہ خدمات محمد حسین انیس سو ستر س]۰۷۹۱ء[سے انجام دے رہا ہے جب چترال واقعی پسماندگی کے خوفناک دور سے گزر رہا تھا۔۔
محمد حسین کا تعلق علاقہ تور کھو کے معزز قبیلہ خوشئے سے ہے آپ علاقہ مہڑپ کے ایک متمول گھرانے میں میر محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔۔آپ کے ابو ریاست چترال کی انگریز فوج میں ایک قابل ترین انسٹرکٹر تھے۔آپ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے جب آپ ایک سلامی کے دوران ہوشیار پوزیشن میں آیا تو پاؤں اس زور سے زمین پہ مارے کہ آپ کی ٹانگ فریکچر ہوئی۔۔آپ ریاستی باڈی گارڈ سے ریٹائرڈ ہوئے تو چترال سکاؤٹ میں بطور انسٹرکٹر شامل کیا گیا کیونکہ آپ کا متبادل ملتا نہیں تھا۔۔آپ نے انیس سو ستر میں اپنے خاندان سمیت چترال شہر میں سکونت اختیار کر لی۔نوکری سے فارغ ہو کر کاروبار شروع کیا۔۔محمدحسین نے ہائی سکول چترال سے دسویں تک تعلیم حاصل کی۔تعلیم کی قدر تھی مگر آپ نے اپنا کاروبار شروع کیا۔۔اس زمانے میں محمد حسین صاحب کے ساتھ اپنی جیب ہوا کرتی تھی۔جیب روڈ بن کر کوراغ پہنچی تو محمد حسین پہلے ڈرائیور تھے کہ گاڑی لے کر کوراغ پہنچا۔چترال کے خطر ناک راستے چاچیلی،دوتھان،یار خون تور کھو وغیرہ کے کچے راستے جب نئے بنے ان پہ پہلی دفعہ گاڑی چلانے والوں میں محمد حسین کا نام شامل ہے اور ان پکڈنڈیوں سے اب بھی آپ کی ہمت کی خوشبو آرہی ہے۔سنوغر سے آگے ”تاؤ“ پہاڑی پہ پہلی دفعہ گاڑی لے کے گزرے تو انگریزٹورسٹ جو ان کے سواری تھے ان کی ہمت دیکھ کر ان کو اس زمانے میں دوسو روپے کاانعام دیا۔۔محمد حسین اس لحاظ سے چترال کی living historyہیں جس کو زندہ تاریخ کہہ سکتے ہیں۔محمد حسین اپنی جوانی میں نہایت خوبرو جوان ہوا کرتا تھا۔چترال کے مشہور الفتح کلپ کے فٹبال کے لیجنڈ کھیلاڑی ہوا کرتے۔۔آپ کی جوانی کمال کی بے داغ رہی۔۔کبھی سگریٹ نہیں پیا۔کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔کبھی اس کے ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔۔چترال کی عظیم روایات کا پابند رہا۔عورت مر د،بوڑھا بچہ،مزدور مستحق،مریض تندرست سب آپ کے بہترین اخلاق اور کردار کے معترف رہے۔خدمت میں آپ ہمیشہ پہلی صف میں رہے۔۔محمدحسین نہایت خوش ا خلا ق اور خوش مزاج ہیں۔۔آپ کا حلقہ یاران بہت بڑا ہے۔دسترخوان اس سے بھی بڑا ہے۔۔آپ نے اپنے خاندان کو اس روایت پہ زندہ رکھا ہے۔۔آپ کے پانچ بیٹے تین بیٹیاں اپنے حسن اخلاق سے ثابت کرتے ہیں کہ واقعی وہ ایک عظیم روایتی خاندان کے پروردہ ہیں۔اس کی اخلاق اور کردار مثالی بنایا گیا ہے
۔محمد حسین میکی کی صحت قابل رشک ہے۔۔بہت سحر خیز ہیں۔صبح کی نماز کے بعد بازار آکر مشہور ہوٹل ملفت خان محروم کے ہوٹل میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک کپ کالی چائے پیتے ہیں صدیق خان اپنے مستقل گاہگوں کو یہ کالی چائے بنا کے پیش کرتا ہے یہ ان کی گاکوں کے ساتھ عقیدت ہے۔۔ محمد حسین میکی وہاں سے سیدھا ہسپتال جاتے ہیں جس کاذکر کیا گیا پھر اپنی دکان میں آکرناشتہ کرتے ہیں میکی ٹیکسالی کھوار زبان کے ماہرتصور ہوتے ہیں۔باذوق با ادب ہیں کھوار زبان کے شعراء ادباکا دل سے احترام کرتے ہیں۔چترالی روایات کو جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ا س کو بہت تشویش ہے کہ آج کے چترالی نوجوانوں کو چترالی روایات کا پاس لحاظ نہیں۔ان کی دکان خالص اشیاء کے لیے مشہور ہے لوگ خالص چائے کی پتی خریدنے کے لیے اور کہیں کم کم جاتے ہیں۔آپ کا بھرا پورا خاندان ہے سب بیٹے کام کرتے ہیں۔۔محمد حسین میکی کو اس کے خلوص اور خد مت خلق نے معاشرے کا ایک کردار بنا دیا ہے جس کے ذکر کے بے غیر شاید چترال کی تاریخ نا مکمل ہو۔آپ واقعی دردل کے واسطے پیدا ہوئے ہیں دوسروں کے لئے جینا انسانیت کا معیار ہے لیکن اس معیار تک پہنچنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں۔آپ اپنی زات میں انجمن ہیں۔آپ کی زات ایک خوشبو ہے۔۔آپ کی شخصیت ایک روشنی ہے اور آپ کا اخلاق ایک قابل تقلید معیار ہے۔آپ جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں چھوٹے شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ کردار بھی چھوٹے لگتے ہیں اگر محمد حسین میکی کسی بڑے شہر میں ہوتے تو دوسرے عبد الستار ایدھی ہوتے۔یہ چترال کی عظمت ہیں اور گلشن انسانیت کے وہ پھول جس کی وجہ سے دنیامعطر ہے۔۔ایک خاموش کردار۔۔ستائش اور صلہ سے بے پرواہ ایک ہیرو۔ جس کی تعریف نہ کرنا اپنے آپ پہ ظلم ہے۔۔میرا چترال ان ہستیوں سے خالی نہیں۔
کسی کو بھی مفت بجلی فراہم کرنے کی سہولت ختم کر دی جائے
محترم ایڈیٹر صاحب، آپکے موقر جریدے کے توسط سے میں حکومت پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ واپڈا کے حاضر سروس ملازمین اور ریٹایرڈ ملازمین کو مفت بجلی دینے کی احمقانہ روایت فلفور ختم کی جایے اور اس کی جگہ اگر ضرورت ہو تو ان کی تنخواہ پنشن وغیرہ بڑھایا جایے. اگرصرف یہ ایک اقدام کیا گیا تو ملک سے بجلی کی کمی دور کرنے میں بہت مدد ملے گی.’ کیونکہ مفت بجلی استمعال کرنے والے ‘مال مفت دل بے رحم’ کے مصداق بجلی کا بیدردی سے ضیاع کرتے ہیں . شکریہ… محمد عابد ‘چترال.
تبلیغی جماعت سے التماس
تبلیغی جماعت سے التماس: چترال نیوز اداریہ
تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع چند دنوں میں منعقد ہونے والا ہے. تبلیغی اجتماع حج کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع مانا جاتا ہے. اور جب یہ پاکستان میں منعقد ہوتا ہے تو ملک کے گوشہ گوشہ سے اعلی تعلیم یافتہ سے لیکر ان پڑھ دیہاتی لوگ تک جوق در جوق اس میں شامل ہوتے ہیں. بہت سارے لوگ تو کل وقتی طور پر تبلیغ کی راہ میں چل پڑے ہوتے ہیں اور یہ امر تبلیغی جماعت کی ایک بڑی طاقت ہے. اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والوں کی کمی نہیں ہے اور تبلیغی جماعت اور اجتماع اس کا مظہر ہے
گذارش تبلیغی جماعت کے امرا اور ذمہ واروں سے یہ ہے کہ اس بار تبلیغی اجتماع میں درس کے دوران حقوق العباد پر خصوصی توجہ دی جایے کیونکہ مسلمان چاہے وہ پانچ وقت کا نمازی ہو’ الحاج ہو’ تبلیغی ہو’ جو بھی ہو حقوق العباد کی پاسداری میں نہایت کمزور ہے.. پوچھو تو کہتا ہے کہ یہ چھوٹے موٹے گناہ تبلیغ کرنے سے’ حج کرنے سے یا فلاں فلاں عبادت یا وظائف پڑھنے سے معاف ہو جائیں گے
ہماری التجا تبلیغی جماعت کے رہنماؤں سے یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو بتائیں کہ عبادات اور وظائف کی برکت سے اگر کوئی گناہ معاف ہوتے ہیں تو وہ حقوق اللہ کے مد میں سر زد کیے گئے گناہ ہوتے ہیں جبکہ قرآن پاک کے مطابق حقوق العباد کے مد میں کیے گئے گناہ الله تعالیٰ عبادات کے بدلے معاف نہیں فرماتے. اگر یہی ایک بات اس تبلیغی اجتماع میں زور دے کر سمجھایا جائے تو مسلمانوں کے موجودہ پست اخلاقیات کا کایا پلٹ سکتا ہے. اور تبلیغی جماعت وہ کچھ حاصل کرسکتا ہے جتنا شاید آج تک حاصل نہ کر سکا ہو
بیداری کی ضرورت ہے
جس کھیت سے دھقان کو — پروفیسر رحمت کریم بیگ
اے اہل وطن! اے جوانان چترال! اے مرد کوہستانی! آج ہم تمام چترالی جس مقام پر کھڑے ہیں ور جس طرح حالات کے سامنے بے بس ہیں، جس طرح ہماری کوئی شنوائی نہیں ہورہی، کوئی ہماری درخواست سننے کے لئے تیار نہیں، کوئی وزیر با تدبیر ہمیں ملاقات کا وقت دینے کے لئے تیار نہیں کیا ہم اسی طرح خاموش اور بے بس بیٹھے رہیں گے اگر ہم نے ایسا کیا تو انے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی، ہم سب سوئے ہوئے ہیں، ہمارے نمایئندے بھی خراٹے لے رہے ہیں وہی خراٹے جس پر منو بھائی نے ایک کالم لکھا تھا کہ اسمبلی ہال میں اجلاس کے دوران خراٹے لینا منع ہے۔
وہ دن اور آج کا دن وہ کالم مجھے پریشان کئے ہوئے ہے اور یہ کالم بھی چترال کے ایم۔این۔اے کے بارے میں تھا جو رات جاگ کر اور دن کو اسمبلی ہال میں سو کر ہماری نمایئندگی کا حق ادا کر رہا تھا۔ ہمارے آبا ؤ اجداد نے اس ملک کو دوسروں سے بچانے کے لئے اسمار میں، گلگت میں، یارخون میں، لواری میں، ارندو میں اور بشگال میں جا کر جنگیں لڑیں اور اپنی ملکی حدود کا دفاع کیا یہ ساری قربانی انہوں نے اس لئے نہیں دیا کہ باہر کے لوگ اکر یہاں کے باشندوں کو بیدخل کریں ہم ان کی قربانیوں کو اگر ضائع کریں گے تو ہماری بڑی بے غیرتی ہوگی اور یہ شرم کی بات ہے، آپ لوگ زرا اپنی تاریخ کے صفحات دیکھ لو آپ کو بہت کچھ معلومات ملیں گی۔
جس طرف دیکھو لوگ اپنی زمین بیچ کر، اپنا گھر بیچ کر، اپنی آبائی جائے رہائش چھوڑ کر پرائی تہذیب کے لوگوں میں جاکر اپنی زبان کے ساتھ ثقافت بھی بھول رہے ہیں، ہماری نئی نسل کے جوان اپنی چترال کے جغرافیہ، تاریخ اور ثقافت سے بالکل بے خبر ہیں۔ ہمیں بیدار ی کی ضرورت ہے جاگو! اور جاگ کر قدرتی وسائل میں اپنا حصہ چھین کر حاصل کرو کہ مانگنے سے کوئی ہمیں دینے کے لئے تیار نہیں ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ چترال کے اندر کتنے مسائل ہیں لیکن حکام بالا کو پرواہ ہی نہیں ہے کیونکہ چترال کی آبادی کم ہیں ان کا کلچر پٹھان سے بالکل مختلف ہے اور صوبہ کہ اندر ان کی حیثیت اقلیت کی ہے اور بزدل لوگ ہیں اس لئے اان کو بھول جاؤ یہ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں کھڑا کر سکتے، اگر اس نکتہ پر یقین نہیں تو جاکر کسی وزیر صاحب سے ملاقات، وزیر اعلی سے ملاقات کے لئے وقت مانگ کر انتظار کرو تمہیں زاتی تجربہ ہوجائیگا۔
چترال قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے چترال میں بیشمار وسائل ہیں ان کے بارے میں اگاہی اور استفادے کی ضرورت ہے باہر کے بڑے بڑے مگر مچھ آکر قابض ہوتے جارہے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ چترال میں ۱۔پانی کی بہتات ہے ۲۔ معدنیات کی بہتات ہے ۳۔ سیاحت کے مواقع کی بہتات ہے۔جنگل کا رقبہ کم ہونے کے باوجود ہماری دیار کی لکڑی اعلی کوالٹی کی مانی جاتی ہے ۵۔ ہمارے ہاں بہترین پھل پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں سنگ مرمرکے بڑے بڑے پہاڑ کھڑے ہیں ۷۔ ہمارے پاس بہترین افرادی قوت موجود ہے ۸۔چترال کے طول و عرض میں امن و امان کا دور دورہ ہے اور یہ سب سے بڑا سرمایہ ہے اور اس کی بڑی قدر ہے ہمیں اس کی اہمیت کا ابھی احساس نہیں ہے ان کے علاوہ بھی ہمارے چترال کے اندر بہت کچھ ہے مگر ہم ابھی تک بیدار نہیں ہیں۔
میں نے اوپر سیاحت کی بات بھی کی اس کے بارے میں شومبرگ نام کی ایک فرنگی نے جہاں چترالیوں پر بیجا تنقید کی ہے مگر سچ اور حقیقت ان سے ایک موقع پر نہیں چھپائی جاسکی اور اس نے اپنی کتاب میں (۸۳۹۱) میں لکھا ہے کہ اگر چترال کے پاس کچھ بھی نہ ہو پھر بھی تریچ میر جیسے عظیم چوٹی کی یہاں موجودگی چترال کے لئے ایک مستقل سرمایہ ہے جس کا کوئی نعملبدل نہیں ہے، یہ ایک نہیں بلکہ پچاس اور تریچ میر کے پیچھے کھڑے ہیں جو سیاحت کے بغیر آپ کو چترال شہر سے نظر نہیں آ سکتیں، میرے پیار ے نو جوانو! اپنی تعلیم کے دوران چھٹیوں میں پہلے چترال کے کونے کونے تک سفر کر کے دیکھو قدرت کی اس حیران کن تخلیق کا مشاہدہ کرو اور پھر ان تجربات کی روشنی میں اس ملک کو ترقی دینے کے لئے اکھٹے ہوجاؤ، اس کے بارے میں باہر کے ملکوں میں معلومات بھیجو، اس کی ثقافت اور دیگر پہلوؤں کا زکر کرو ایک متحدہ پلیٹ فارم بناؤ اور چترال کے حقوق کے لئے جد و جہد کا اغاز کرو یہی وقت ہے اور یہ ٹھیک وقت ہے ورنہ موقع ہاتھ سے نکل جائیگا، او ر علاقوں سے نامی گرامی کفن چور یہاں داخل ہوں گے بد قماش بھی یہاں پہنچ کر قابض ہوجائیں گے، ہم پچھتایئں گے، تم پچھتاؤگے مگر فائدہ کچھ نہ ہوگا، چترال کے حقو ق کے لئے ہم نے مل کر لڑنا ہے اور ڈٹ کر لڑنا ہوگا۔
مساجد معاشرے کو سنوارنے کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہیں
چترال نیوز’ ایڈیٹوریل .. مساجد ایک اسلامی معاشرے کا اہم ترین عنصر ہیں. ہر مسلمان دن میں پانچ وقت نماز پڑھنے مسجد میں جاتا ہے یا کم از کم اس کو جانا چاہئے .جب اس قدر اہم کردار مساجد کا ہماری زندگیوں میں ہے تو پھر ہم ان سے معاشرتی بہتری لانے کیلئے استفادہ کیوں نہیں کرتے. چترال کی مثال ہی لے لیں. جتنے مساجد چترال شہر میں ہیں وہ فی کس آبادی کے تناسب سے شائد دنیا میں سب سے زیادہ ہیں. اس لحاظ سے چترال کا معاشرہ مثالی ہونا چاہیے’ مگر حقیت اس کے بر عکس ہے. چترال کے بازار جعلی اشیا میں سب سے آگے ہیں. یہاں کے دفاتر میں کھلے عام رشوت لی جاتی ہے. یہاں کوئی بھی شخص ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی ادا نہیں کرتا اور ڈنڈی مارنے کی تلاش میں رہتا ہے. یہاں عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں . الغرض یہ کہ جس کو جہاں بے ایمانی کا موقه ملتا ہے وہ موقۓ کا فائدہ ضرور اٹھاتا ہے. آخر کیوں ؟ یہ سب کچھ نہ ہو اگر ہمارے مساجد میں درس و تقریر کے دوران حضور پاک(ص) کے سنت کبریٰ یعنی صادق اور امین بننے کے بارے میں درس دی جائے. معاشرتی برائیوں یعنی جھوٹ مکر فریب منافقت اور حرام خوری کے بارے درس دی جائے . موجودہ وقت میں ان معاملات کے بارے میں سننے کو کان ترستے ہیں. اگر کبھی سنتے ہیں تو محض شراب اور فحاشی کی برائی یا پھر سیاست کے بارے میں سنتے ہیں’ باقی روزمرہ کے معاملات میں خرابیوں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنتے.
اگر ہمارے مساجد نماز پڑھنے پڑھانے کے علاوہ معاشرتی تربیت گاہ بھی بن جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک بہتر معاشرے میں زندگی گزار سکیں.